بلوچستان 26 اگست 2024 سانحہ موسیٰ خیل: بلوچستان کا مستقبل؟ حامد میر کی نظر میں

مورخہ: 26 اگست 2024 سانحہ موسیٰ خیل  

بلوچستان کا مستقبل؟ حامد میر کی نظر میں: (بلاگ)

مورخہ 26 اگست 2024 بروز پیر کو بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں بے گناہ اور غیر مسلح سویلینز کو بسوں سے اتار کر گولیاں مار دی گئیں۔ 

حملہ آوروں کی جانب سے اکثر مسافروں کو ان کی شناخت دیکھ کر قتل کر دیا گیا۔ اکثرمقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہروں سے تھا۔ کچھ وسطی پنجاب اور دو بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے جو دونوں پشتون تھے۔

موسیٰ خیل بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کے مشرق میں تونسہ شریف، مغرب میں لورا لائی، شمال میں ژوب اور جنوب میں بارکھان ہے۔ اس علاقے میں پختونوں کی اکثریت ہے جو موسیٰ خیل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور میانوالی تک پھیلے ہوئے ہیں۔

موسیٰ خیل والوں کا کاروبار اور رشتہ داریاں پنجاب سے لیکر خیبر پختونخوا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ لہٰذا اس علاقے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کا آنا اور جانا روزانہ کا معمول ہے۔ 26 اگست کو یہاں جو قتل عام ہوا، اس میں دو پشتون بھی مارے گئے، لیکن میڈیا نے ان دونوں پشتونوں کو نظر انداز کیا نہ جانے کیوں؟

اس سانحے کے بعد حملہ آوروں کی فوری گرفتاری پر توجہ دینے کی بجائے ان معاملات کو اچھالا گیا، جن کا بلا واسطہ دہشت گردوں کو فائدہ ہوا۔ ن لیگی حکومتی وزراء نے حملہ آوروں کو لاپتہ افراد قرار دینا شروع کیا اور مطالبہ شروع کردیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والی ماہ رنگ بلوچ اس سانحے کی سخت مذمت کرے۔

جنوبی پنجاب کے کچھ دانشوروں کا شکوہ یہ تھا کہ قتل ہونے والوں میں اکثریت سرائیکیوں کی تھی، لیکن میڈیا نے انہیں پنجابی قرار کیوں دیا؟ یہ ایک ایسا سانحہ تھا۔ جس کے ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانے کے لئے یکجہتی کی ضرورت تھی، لیکن اس معاملے میں وفاقی وزراء کا موقف تضادات کا شکار بن گیا۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے فرمایا بلوچستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں بلکہ یہ دہشت گرد تو ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف فرماتے رہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے ہندوستان ہے اور ان کے خلاف فوج سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ایک بڑا آپریشن کریگی۔

26 اگست کے اس سانحے نے بلوچستان کے علاقے بیلہ میں ہونے والے ایک اور بڑے حملے کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ جس میں تربت یونیورسٹی کی ایک طالبہ مہل بلوچ بھی شامل تھی۔ مہل بلوچ قانون کی طالبہ تھی اور حملے کے بعد مجید بریگیڈ نے اسکی تصویر بھی جاری کر دی ہے۔

سوشل میڈیا پر سرگرم کچھ سرکاری سائبر کمانڈوز نے اس مہل بلوچ کو ایک اور مہل بلوچ کے ساتھ کنفیوژ کر دیا، جو گزشتہ سال گرفتار ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والی مہل بلوچ دو بچوں کی ماں تھی اور اس نے دوران حراست ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا، کہ اس کا تعلق بی ایل ایف سے تھا۔

بیلہ میں خودکش حملہ کرنے والی مہل بلوچ کا تعلق گوادر کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے تھا۔ ہم نے یہ سوچنے کی ذرا سی بھی زحمت گوارا نہیں کی! کہ تربت یونیورسٹی کے ایک گرلز ہاسٹل سے ایک بلوچ طالبہ بیلہ میں خودکش حملہ کرنے کیسے پہنچ گئی؟

سب کو یہ فکر تھی کہ ماہ رنگ بلوچ حملہ آوروں کی مذمت کب کریگی؟ سوال؟ یہ ہے کہ کیا کسی نے ماہ رنگ بلوچ کے والد غفار لانگو کی حراست میں موت کی مذمت کی تھی؟ اس پہلو کو بھی نظرانداز کر دیا گیا کہ 26 اگست 2024 کے دن بلوچستان میں جگہ جگہ حملے کیوں ہوئے؟

26  اگست بلوچستان کے سابق گورنر اور سابق وزیراعلیٰ نواب اکبر بگٹی کا یوم شہادت ہے۔ 26 اگست 2006ء کو کوہلو کے پہاڑوں میں ایک آپریشن کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سینہ تان کر کہا تھا، کہ ہاں ہم نے ریاست کے ایک دشمن کا خاتمہ کر دیا ہے۔

نواب اکبر بگٹی نے تمام عمر پاکستان کے خلاف ایک لفظ نہ کہا تھا۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کی مدد کی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ 1958ء میں ملک فیروز خان نون کی حکومت کے وزیر داخلہ رہے اور انہوں نے گوادر کو پاکستان میں شامل کرانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ جس حکومت نے گوادر کو پاکستان میں شامل کیا، اس حکومت کو جنرل ایوب خان نے برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا تھا اور بگٹی صاحب کو جیل میں پھینک دیا۔

ہمارے بہت سے دانشور یہ نہیں جانتے، کہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوا، تو بلوچستان اس میں شامل نہیں تھا۔ مکران، خاران، لسبیلہ اور قلات 1948ء میں پاکستان میں شامل ہوئے۔ البتہ اکبر بگٹی اور شاہی جرگے میں شامل کچھ بلوچ سرداروں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیکر ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ باقی ریاستوں کو بھی پاکستان میں شامل ہونا پڑا۔گ

خان آف قلات میر احمد یار خان بلوچ ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہوئے۔ پاکستانی ریاست نے انہیں بلوچ شناخت کے ساتھ ایک صوبہ دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن ون یونٹ بنا کر ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی۔ اس وعدہ خلافی کے خلاف نواب نوروز خان نے بغاوت کی تو قرآن کا واسطہ دیکر انہیں مذاکرات پر راضی کیا گیا۔ 90 سالہ نواب نوروز خان قرآن کے نام پر پہاڑوں سے نیچے اتر آئے لیکن جنرل ایوب خان نے انہیں اور خان آف قلات کو جیل میں ڈال دیا۔

اسی قسم کے مذاکرات جنرل پرویز مشرف نے 2006ء میں چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کے ذریعہ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ کئے اور آخر میں مذاکرات کے نام پر دھوکہ دیا۔ 80 سال کے نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے لواحقین کو ان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

2009ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر اکبر بگٹی کے قتل کی ایف آئی آر جنرل پرویز مشرف کے خلاف درج کی گئی۔ سات سال تک یہ مقدمہ چلا۔ مشرف ایک دفعہ بھی عدالت نہ آیا، اگر اس مقدمے میں بگٹی صاحب کے صاحبزادے جمیل اکبر بگٹی کو انصاف مل جاتا، تو شاید وہ حالات پیدا نہ ہوتے، جن سے آج بلوچستان دوچار ہے۔

حالات کو سدھارنے کی بجائے بلوچستان میں ایک ایسی حکومت قائم کر دی گئی ہے، جو صوبے کے عوام میں انتہائی غیر مقبول ہے۔ یہ حکومت ہروقت یہی کہتی رہتی ہے، ہم آئین کو نہ ماننے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ پہلی بات تو یہ طئے ہے کہ آئین کو نہ ماننے والے بھی آپ سے مذاکرات پر راضی نہیں دوسری بات یہ ہے، کہ جو آئین کو مانتے تھے اور بندوق کی بجائے ووٹ کی سیاست کرتے رہے، انہیں فارم 47 کے کرشمے سے قومی دھارے سے نکال کر عسکریت پسندوں کو مضبوط کیا گیا۔

بلوچستان میں عسکریت کی ایک لمبی تاریخ ہے یہ پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوتی ہے جب 1916ء میں بریگیڈیئر ڈائر نے بلوچستان میں آپریشن کیا تھا۔ دوسری عسکریت 1948ء، تیسری 1958ء، چوتھی 1962ء، پانچویں 1973ء، اور چھٹی 2006ء میں شروع ہوئی۔

جس مجید بریگیڈ سے مہل بلوچ کا تعلق ہے اس بریگیڈ کا نام مجید لانگو کے نام پر ہے۔ جس نے 2 اگست 1974ء کو کوئٹہ میں ذوالفقار علی بھٹو پر حملہ کیا اور مارا گیا تھا۔ آج پھر بلوچستان پر بھٹو کی پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ بھٹو نے اپنی کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ میں اعتراف کیا تھا، کہ فوجی جرنیلوں نے بلوچستان میں ان سے غلطیاں کروائیں۔

آج کی پیپلز پارٹی کو شاید اس کتاب کا ہی پتہ نہ ہو بلوچستان کے مسئلے کا حل نہ بندوق ہے نہ جھوٹ ہے جو بھی فریق بے گناہوں کے خلاف بندوق استعمال کرتا ہے۔ وہ شیطان کا ساتھی ہے۔ فریقین خدا خوفی کریں اور ظلم بند کر دیں، تو بلوچستان میں امن امان قائم ہو سکتا ہے۔

حامد میر کے بلاگ پر اس کڑوے اور تاریخی سچ سے حکومتی اداروں کو سیکھنے کو بہت کچھ مل سکتا ہے۔ تاہم اب بلوچستان میں مزید غلطیاں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی