میرپورخاص: گستاخِ رسول کے الزام میں ڈاکٹر شاھنواز کنبھار ماورائے عدالت، پولیس مقابلے میں قتل

دی پاکستان افیئرز: مانیٹرنگ ویب ڈیسک میرپوخاص:

دی پاکستان افیئرز کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق شاھنوازکنبھار کو گستاخِ رسول کے الزامات کی بناں پر پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا ہے۔ شاھنواز کنبھار جوپیشے کے لحاظ سے ایک سرکاری ڈاکٹر تھا اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر عمرکوٹ میں سینیئر میڈٰکل آفیسر گریڈ-18 کے عہدے پر فائز تھا۔ 

شاھ نوازشاھ نام کی فیس بک آئی ڈی پروفائل سے مورخہ: 17 ستمبر 2024 کو گستاخانہ مواد اپلوڈ کیا گیا۔ جس پر سوشل میڈیا پر بڑا ردِ عمل سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 

یہ ردِ عمل اپنی انتہا کو پہنچ گیا، عمرکوٹ میں چند جنونی ملاؤں نے عوامی ہجوم کٹھا کر کے تھانے کا گھیراؤ کردیا اور وہاں کھڑی پولیس کی گاڑیوں کو بھی احتجاجً آگ لگا دی اور پولیس سے فوری کاروائی کا مطالبہ کیا۔ 

مورخہ 17 ستمبر 2024 کو ڈاکٹر شاھنواز کے خلاف عمرکوٹ تھانے پر ایف آئی آر درج کردی گئی 

اور17 ستمبر 2024 کومیڈیکل سپریٹینڈنٹ DHQ عمرکوٹ کی جانب سے ڈاکٹر شاھنواز کنبھار کو رلیونگ آرڈر جاری کرکے سیکریٹری ہیلتھ گورنمینٹ آف سندھ کراچی کے دفتر میں رپورٹ کرنے کا آفیس آرڈر جاری کردیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مورخہ: 18 ستمبر 2024 کو ڈاکٹر شاھنواز کنبھار جیسے ہی کراچی رپورٹ کرنے پہنچے تو ان کو میرپورخاص پولیس نے مذکورہ ایف آئی آر کی بناں پر گرفتار کر لیا اور شدید مذھبی دباءُ پر مورخہ 19 ستمبر2024 کو سندھڑی پولیس اور میرپورخاص پولیس کی Joint کاروائی میں Encounter پولیس مقابلہ دکھا کر، ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ جو پولیس کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ خبر سنتے ہی ایس ایس پی جاوید جسکانی کو مذہب پرست جماعتوں کی جانب سے پھولوں کے ہار پہنا کر جشن منایا گیا۔ 

خفیہ ذرائع کے مطابق مذہبی جماعتوں کی جنونی کیفیت دیکھ کر ڈاکٹر شاھنواز کے ورثاء نے خوف کے مارے ان کی Dead Body لینے سے انکار کر دیا جنونی مذہبی جماعتوں کی جانب سے تمام لوگوں کو نمازِ جنازہ ادا کرنے سے سختی سے روک دیا گیا۔ پولیس نے dead body کو کسی غیر محفوظ جگہ ریت میں جاکر پھینک دیا۔ جنونی مذہب پرستوں نے پولیس کے جاتے ہی ڈاکٹر شاھنواز کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ بے حرمتی کرنا شروع کردی، ان کا سر دھڑ سے الگ کر کے اس کی نعش کو آگ لگا دی گئی۔ 

یہ سب سندھ کے مشہور شہر عمرکوٹ میں ہوتا رہا۔ کسی نے اس مذہبی جنونیت پربات کرنا گوارہ نہ سمجھی۔ ایک طرف عمرکوٹ کا عدالتی نظام چلتا رہا، دوسری طرف ڈاکٹر شاھ نواز کا جسد خاکی جلتا رہا۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ مذمت کرتے رہے اور کچھ لوگ ملاؤں اور پولیس کو شاباشی دیتے رہے۔ 

تاہم ڈاکٹر شاھنواز کے پولیس مقابلے میں قتل کیئے جانے کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پراس ماورائے عدالتی قتل کے خلاف ایک اور ردِ عمل سامنے آرہا ہے۔  پولیس پرقانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اب یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، کہ 

01۔ کیا ڈاکٹر شاھنواز پر لگائے گئے گستاخانہ الزامات کی سب سے پہلے تحقیقات اور انکوائری کی گئی؟ ڈاکٹر شاھنواز کو سب سے پہلے پولیس کسٹڈی میں کیوں نہیں لیا گیا؟

02۔ کیا ڈاکٹر شاھنواز میڈیکلی فٹ تھا، اس کی ذہنی کیفیت درست تھی؟ کہیں وہ کسی مینٹل ڈس آرڈر یا شدید ڈپریشن میں مبتلا تو نہیں تھا؟

03۔ کیا ڈاکٹر شاھنواز کے ساتھ کسی کی کوئی دشمنی تھی، جس دشمنی کی وہ بھینٹ چڑھ گیا؟ اور یہ سارا عمل اس دشمنی کا نتیجہ تھا؟

04۔ کیا ڈاکٹر شاھنواز کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک تو نہیں ہوا، کسی نے جان بوجھ کر اس کے اکاؤنٹ سے گستاخانہ مواد اپلوڈ کر کے، اس کو ذلیل و خوار کرنے اوراس کو عوامی ہجوم یا پولیس کے ہاتھوں مروانے کی کوئی سازش تو نہیں رچائی؟ 

05۔ کہیں یہ قتل ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کیلئے پولیس کو پیسے دیکر، تو نہیں کروایا گیا؟

اس جدید دؤر میں جہاں عمرکوٹ میں انتہائی پڑھے لکھے، باشہور لوگ رہتے ہیں، وہاں ایک میڈیکل ڈاکٹر کو جو مسیحیٰ بن کر انسانیت کی خدمت کر رہا تھا، گستاخانہ مواد کےالزامات کی مکمل تحقیقیات کرائے بغیر، ماورائے عدالت قتل کیا جانا، یقیناً ایک انتہائی دل دکھا دینے والا عمل ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

ضروری احتیاطی تدابیر؟

لہٰذا اس وقت مذھبی جنون پرستی عروج پر ہے اور مذہبی جنون پرست آپ کے آس پاس دن دناتے گھوم رہے ہونگے۔ لہٰذا ایسے جنونی مذھب پرستوں سے اپنا فاصلہ برقرار رکھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں، نہ کہ اس راستے پر جو آپ کو گمراہ کردے اور آپ کسی جنونی مذہب پرست گروہ کے ہتھے چڑھ کر، اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ 

جب تک آپ اپنی صفائی دیں یا کوئی اور آپ کی صفائی دے، تب تک آپ کا ہی مکمل صفایہ ہو چکا ہو۔ اس لیئے اپنے ہرعمل کو نظرانداز کرنے کے بجائے اس کو Review کرنے کی عادت ڈالیں، خاص طور سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت سب سے پہلے یہ یقین کرلیں، کہ کیا آپا فیس بک، ٹوئیٹر ایکس، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس محفوظ ہیں؟ ان کی پرائیویسی مضبوط ہے؟ اور سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھنے یا بولتے وقت انتہائی توجہ کے ساتھ یہ یاد رکھیں، کہ کہیں کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر آپ کی کوئی گفتگو، عمل یا وڈیو کسی بھی مذہب سے ٹکراؤ میں تو نہیں! اسی طرح آپ شر پسند عناصر سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی