بلوچستان: نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر جان مینگل کا قومی اسیمبلی کے عہدے سے استعفیٰ، حکومت کیلئے چارج شیٹ بن گیا

 دی پاکستان افیئرز: ویب ڈیسک | اسلام آباد

بلوچستان نیشنل پارٹی BNP کے صدر محمد اختر مینگل جو سردار اختر جان مینگل کے نام سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ 

جب سردار اختر جان مینگل نے منگل کی روز 03 ستمبر 2024 کو اپنے قومی اسیمبلی کے عہدے سے اچانک استعفیٰ دیا، تو حکومتی مشینری میں ہلچل مچ گئی۔ کیونکہ بلوچستان کے حالات اس وقت پوری پاکستانی ریاست کیلئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ بلوچ کہتے ہیں پاکستان آزاد ہونے کے باوجود وہ آج بھی آزاد نہیں ہیں۔ پاکستانی شہری ہونے کے ناتے ان کے بنیادی حقوق غضب کیئے جا رہے ہیں، پانی، بجلی گیس، صحت تعلیم اور انصاف کیلئے آج بھی بلوچ عوام کیلئے ایک نہ پورا ہونے والا خواب بن چکے ہیں۔ 

جس کی وجہ سے بلوچستان میں عرصہ دراز سے آزادی کی تحریکیں چلنا شروع ہو چکی ہیں۔ جس کی الگ الگ جماعتیں اور الگ الگ نظریات ہیں۔ مگر اب ایسے لگ رہا ہے کہ بلوچ اپنے تمام بلوچ جماعتوں کو اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

جس کی وجہ سے اس وقت ریاست پاکستان ایسٹبلشمنٹ) اور بلوچستان میں اپنے حقوق کی آزادی کی تحریک چلانے والوں کے مابین  ایک شدید تناؤ کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ آدھا بلوچستان 28 سالہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی رہنمائی اور قومی نمائندگی پر اعتماد کر کے اس کے پیچھے چل پڑا ہے اور آدھا بلوچستان آزادی کی تحریک چلانے والے مصلح گروپ اور ونگز کے رحم و کرم پر ہے۔ 

بلوچستان میں کہیں پر بھی حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی۔ وقت حکومت اور افواج پاکستان بلوچستان کی تمام تحریکوں کو ریاست پاکستان کیلئے شدید خطرہ اور ملک سے غداری کا نام دیتے ہیں۔ بلوچستان میں مصلح گروپوں کے خلاف جب حکومتی ہدایات پر افواج پاکستان کاروائی کرتی ہیں انہیں گرفتار کیا جاتا ہے تو ان کا ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ اپنے ورثاء کی نظر میں مسنگ پرسنز سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح ہر آنے والی حکومت بلوچستان کے حالات کو سمجھنے کے بجائے انتقامی کاروائی پر یقین رکھ کر بلوچوں کی دکھتی رگوں پر پاؤں رکھ کر انہیں مزید اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ 

بلوچستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں کو وقت حکومت عارضی دعوے اور اپنے نا مکمل ہونے والے وعدوں کے ادھار پر حکومت میں شامل تو کر لیتی ہے مگر پھر اپنے ہی کیئے ہوئے وعدے اور دعوے سے پھرنا ہر حکومت کی ایک چال ہوتی ہے۔ پھر سے بلوچستان کے سیاسی رہنماء حکومت وقت سے مایوس ہو کر الگ ہو جاتے ہیں۔ 

اسی طرح ایک بار پھر پاکستان کے ایوان میں بلوچستان کے عوام کی نمائندگی کرنے والے سردار اختر جان مینگل کا استعفیٰ حکومت وقت کیلئے ایک چارج شیٹ بن گیا ہے۔ جس نے اپنے استعیفے میں واضح لکھا، کہ جس عوام کی وہ نمائندگی کر رہا ہے اس ایوان سے ان کیلئے اب تک کچھ بھی نہیں کر سکا۔ 

یہ ایوان بلوچستان کو ہمیشہ کی طرح اگنور کرتا آیا ہے۔ ہمیں ہر آنے والے دن دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے معاملات پر بات کرنے والوں کے موں پر ٹیپ لگا دی گئی ہے اور اگر وہ بات کر بھی لیتے ہیں، تو انہیں یا تو خاموش کروا دیا جاتا ہے یا غدار وطن کا لیبل لگایا جاتا ہے یا پھر گم کیا اور مار دیا جاتا ہے۔ اس لیئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں اور بلوچستان کی حفاظت کیلئے دعا کرتا ہوں۔

حکومتی مشینری کی جانب سے بلوچستان نیشنل پارٹی BNP  کے صدر سردار اختر جان مینگل کو راضی کر کے دوبارہ ایوان میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے استعفے پر منظوری کی مہر لگانے کے عمل کو فی الوقت روک دیا گیا ہے۔ ناراض بلوچ لیڈر سردار اختر مینگل استعفیٰ دینے کے بعد پاکستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ 

سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اس سے بات کرنے کے بجائے اس کے ناراض بلوچ عوام سے بات کی جائے، ان کے جائز مطالبات پورے کیئے جائیں ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی جائے۔ لیکن فی الوقت تمام حکومتی کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ 

دوسری جانب حکومتی جماعت کے ایک میمبر رانا ثناء اللّٰہ کی جانب سے سردار اختر جان مینگل کی استعفیٰ پر مزاحیہ طنز کی جا رہی ہیں۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی