دی پاکستان افیئرز: ویب ڈیسک نوابشاھ
پاکستان پیپلز پارٹی نوابشاھ کے پرانے کارکن اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کے
ماضی کے قریبی ساتھی اسماعیل ڈاہری مورخہ: 16 اکتوبر 2024 کی صبح کو حیدرآباد عدالت میں پیشی کے وقت اسماعیل ڈاہری نے مشہور سندھی نیوز چینل مہران ٹی وی کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے اہم انکشافات کیئے۔
جب صحافی نے اسماعیل ڈاہری سے پوچھا، کہ آپ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن ہیں، آپ کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ تو اسماعیل ڈاہری نے جواب میں کہا کہ میں بلکل پ پ کا پرانا کارکن ہوں، مجھے چند دن پہلے حیدرآباد میں منشیات اور اصلحہ رکھنے کے الزام میں جعلی کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔
مجھے کہا جا رہا ہے، کہ سندھ کے ہوم منسٹر ضیاء لنجار سے معافی مانگو، میں پوچھتا ہوں کہ میں اس سے کس چیز کی معافی مانگوں؟ یہ وہ شخص ہے، جو کبھی تھکی پرانی ویسپا موٹر سائیکل پر نوابشاھ میں گھومتا اور 500 پانچ سو روپے میں میرا وکیل بنتا تھا۔ اس کو زرداری اور فریال کے ساتھ ملانے اور متعارف کروانے والا میں تھا۔ معلوم نہیں اب یہ کس کے کہنے پر مجھ جیسے پرانے پارٹی ورکر کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کر رہا ہے؟ مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اوپن وارڈ کے بجائے سیلڈ وارڈ میں بند کیا گیا ہے۔ یہ ہی پریکٹس رہی تو میں مر جاؤں گا اور یہ مجھے مار دینگے یا مروا دیا جاؤں گا۔ میں بیمار ہو چکا ہوں۔ مجھے، میرے خاندان اور گھر والوں کو شدید پریشان کیا جا رہا ہے۔ قاضی احمد میں ایس ایچ او اصغر اعوان کو لگا کر، میرے خاندان کے گھر والوں اور نوکروں پر تشدد کرکے گھر کا قیمتی سامان، سونے زیورات، کیش اٹھا کر لے گئے ہیں۔
بس میں مزید کچھ نہیں کہوں گا، مجھے یہ اپنے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ جو میں نے کسی کے کہنے پر کسی کا قتل کیا اور کسی کی جائیداد اور زمینوں پر قبضے کیئے۔ مجھے محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کرنے کیلئے بڑی رقم آفر کی گئی تھی، مگر میں نے صاف صاف انکار کر دیا تھا۔ محمد خان چاچڑ اس بات کا گواہ ہے۔ پھر یہ سوپاری پشاور کے قریب بڑے مدرسے کے مالک مولوی سمیع الحق کو دی گئی۔ جس نے طالبان کے ہاتھوں بینظیر بھٹو کو شہید کروانے میں دیر ہی نہیں کی اور اس کے بدلے 12 ارب روپے کی رقم وصول کی۔
مگر اب سوال پیدا ہوتا ہے، کہ سندھ کے ہوم منسٹر اور وزارت قانون کے منسٹر ضیاء الحسن لنجار اور اسماعیل ڈاہری کے درمیان آخر کس چیز کا تنازعہ ہے؟ اور اسماعیل ڈاہری جو انکشافات کر رہا ہے، کیا اس کی تحقیقات ہوگی؟ اور اس کے بعد اسماعیل ڈاہری کی زندگی محفوظ رہے گی؟ اور اس کی باتوں میں کتنی صداقت ہے؟ شاید ان سوالوں کا جواب آنے والے وقت میں مل جائے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں، کہ ایس ایچ او قاضی احمد اصغر اعوان نے اسماعیل ڈاہری کے بھائیوں اور دیر افراد کو گم کر دیا ہے۔