دی پاکستان افیئرز: ویب ڈیسک سکھر
کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق رضا زنگیجو کی بہن زینب زنگیجو نے بتایا کہ
وہ اپنے بھائی کے ساتھ کراچی سے پنجاب صادق آباد کی الرحمٰن کوچ میں اپنے گاؤں واپس آرہے تھے، کہ جب کوچ رانی پور کراس کر رہی تھی، تب اچانک سامنے پولیس کھڑی دکھائی دی، پولیس والوں نے بس کو روکا اور رضا زنگیجو کو کوچ سے اتار کر اپنی تحویل میں لے لیا، وہ چیختی چلاتی رہی لیکن پولیس والے زبردستی اس کے بھائی کو اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔
اور پھر اس کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر کے اس پر مختلف جرائم میں شامل جھوٹی ایف آئی آرز درج کردی گئیں، جو ساری 2024 کی ہیں، اس سے پہلے کا کوئی رکارڈ کیوں نہیں ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے؟ اور پھر 16 ایف آئی آرز میں نامزد ایک مجرم کو پولیس نے اس سے پہلے گرفتار کیوں نہیں کیا؟
زینب نے کہا کہ پولیس والے اس کے بھائی کو اسی کے سامنے گاڑی سے اتار کر لے گئے اور پولیس مقابلہ دکھا کر مار دیا۔
جبکہ ایس ایس پی امجد شیخ نے، رضا زنگیجو کی بہن زینب زنگیجو کی جانب سے پولیس پر لگائے گئے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے، پریس کانفرنس میں رضا زنگیجو کو پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا اور اس کے خلاف جرائم کی ایک لمبی فہرست دکھائی، جس میں رضا زنگیجو پر مختلف تھانوں پر مختلف جرائم کے 2024 میں 16 کیس کی ایف آئی آرز درج کر دی گئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر عوام نے اس معاملے پر آواز اٹھایا، تو سب سے پہلے امتیاز چانڈیو نے اپنے وی لاگ میں ایس ایس پی امجد شیخ کی جانب سے رضا زنگیجو کو پولیس مقابلے میں مارنے کے دعوے کو رد کر دیا اور کہا، کہ دراصل رضا زنگیجو نے اپنے باپ کے پولیس سے تحفظ کی عدالت میں پٹیشن دائر کرائی تھی۔ جس پر پولیس افسران رضا زنگیجو پر غصے میں تھے اور جعلی پولیس مقابلہ دکھا کر رضا زنگیجو کو اس کی بہن کے سامنے کراچی سے سکھر صادق آباد جانے والی کوچ سے خیرپور کے قریب اتار کر جعلی مقابلہ دکھا کر ہلاک کر دیا اور اب ایس ایس پی سکھر امجد شیخ معاملے کو چھپانے کیلئے طرح، طرح کے الزامات عائد کر کے جعلی پولیس مقابلے کو اصلی پولیس مقابلہ ثابت کرنا چاہتا ہے، جو ہم کبھی نہیں ہونے دینگے!
جبکہ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر سکھر پولیس کی جانب سے رضا زنگیجو کے جعلی پولیس مقابلے میں بے رحمانہ اور ظالمانہ قتل کے خلاف آواز اور احتجاج اب پہلے سے بھی زیادہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ ورثاء سکھر پولیس کے نامزد پولیس افسران و اہلکاروں کو اس قتل کا ذمہ دار ٹہرا کر ایف آئی آر درج کروانا چاہتے ہیں، جبکہ پولیس اپنے پٹے بھائیوں کو بچانے کیلئے ورثاء کی جانب سے نامزد لوگوں پر ایف آئی آر درج کروانے سے قطرا رہی ہے۔
اور پھر سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھنے لگے ٹی وی نیوز چینل پر ایس ایس پی امجد شیخ سے لوگ پوچھنے لگے، کہ جب اس ملک میں عدل و انصاف کیلئے عدالتیں قائم ہیں، ریاست کا مجرموں کو سزا دینے کا ایک آئینی اور قانونی نظام موجود ہے۔ تو آپ ایک سی ایس ایس آفیسر ہوکر کسی بھی شخص کو بس سے اتار کر پولیس مقابلے میں کیس ہلاک کر سکتے ہیں؟ پھر آئین قانون اور عدالتیں کس لیئے؟ آپ میڈیا پریس کانفرنس کر کے اس کو پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کرینگے اور عوام کو خاموش کرنے کی ناکام کوشش کرینگے! تو یہ آواز بند ہونے کے بجائے، مزید بلند ہوتی جائیگی!
آپ نے عدالتی نظام کو نظر انداز کر کے روڈ پر اپنی عدالتیں لگا کر، لوگوں کو اپنے مطابق مجرم قرار دے کر ہلاک کرنے کا جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے، اس سے عوام میں پولیس کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوگا۔ آپ جیسے پڑھے لکھے پولیس افسر نے نہ صرف پولیس کا مورال بلند کرنے کے بجائے گرا دیا ہے، بلکہ پاکستان کے عدالتی نظام کو مکمل طور نظر انداز کردیا ہے، جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں ثابت ہوگا، کہ کیا واقعے ہی سچ میں رضا زنگیجو ایک مجرم تھا، جس کو پولیس مقابلے میں مارا گیا اور اگر وہ مجرم بھی تھا، تو آپ کو مجرم کو مارنے کا اختیار کس نے دیا؟ آپ کا کام مجرم کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے اس کو عدالت میں پیش کرنا ہے، نہ کہ اس کو قتل کروانا ہے۔